قرآنِ کریم فرقانِ حمید انسانوں کے نام اﷲ تعالیٰ کا آخری پیغام ہے جو 23 برس کے عرصہ میں نبی پاک ؐ پر وحی کی صورت میں نازل ہوا۔ اس کے بھیجنے والے کی کبریائی و بزرگی۔ جن پر بھیجا گیا اُن کی عظمت و سربلندی اور خود اپنی اہمیت اور خوبی کے باعث اس کو قرآن شریف۔ قرآن کریم اور قرآن مجید بھی کہتے ہیں۔جس طرح اﷲ تعالیٰ کے اسمائے صفات الحی اور وغیرہ ہیں اسی طرح اس مقدس کتاب کے صفاتی ناموں میں الفرقان۔ الکتاب۔ البرہان۔ الھٰدی اور الحکمت بھی شامل ہیں۔ قرآن کریم اﷲ کے احکام و ہدایات کو تمام و کمال حالت میں لے کر نازل ہوا اور اس کی حفاظت بھی اﷲ نے خود دے رکھی ہے۔ قرآن مجید کی ابتدائی آیات غارِ حرا میں حضرت جبرئیل ؑ کی زبانی رمضان المبارک میں لیلتہ القدر کو نازل ہوئیں۔ جس رات میں اﷲکا آخری پیغا مِ ہدایت نازل ہونا شروع ہوا اس سے بڑھ کر خیر و برکت والی رات دورِ فلک نے نہ دیکھی اور نہ دیکھے گا۔ سورئہ البقرہ کی آیت نمبر 185 میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے ترجمہ “رمضان و ہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا”۔ لیلتہ القدر کی فضیلت سورئہ دحٰان کی آیت نمبر 3 میں یوں فرمائی گئی ہے ترجمہ “ہم نے اسے ایک برکت والی رات میں نازل فرمایا ہے”۔ رمضان المبارک کی وہ رات جس میں قرآن نازل کیا گیا اسے لیلتہ القدر یا شبِ قدر کہتے ہیں۔ مفسرین جن میں حضرت ابن عباسؓ بھی شامل ہیںنے قرآن نازل کرنے کے دو مطلب لئے ہیں۔ایک تو یہ کہ پورا قرآنِ کریم حاملِ وحی فرشتوں کے حوالے کر دیا گیا۔ اور حالات و واقعات کے مطابق حضرت جبرئیلؑ اﷲ کے حکم سے وقتاً فوقتاً اس کی آیات اور سورتیں حضور اکرمؐ پر نازل فرماتے رہے۔ جبکہ امام شبعیؒ کے قول کے مطابق قرآن کے نزول کی ابتداء لیلتہ القدر سے ہوئی۔ دونوں اقوال کی روشنی میں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حضور اکرمؐ پر نزولِ قرآن کا سلسلہ شبِ قدر کو ہی شروع ہوا تھا۔ سورئہ القدر کی آیت نمبر ایک تا پانچ میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے ترجمہ “ہم نے اس (قرآن) کو شبِ قدر میں نازل کیا ہے۔ اور تم کیا جانو کہ شبِ قدر کیا ہے۔شبِ قدر ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے۔ فرشتے اور روح اس میں اپنے رب کے اذن سے ہر حکم لے کراُترتے ہیں۔ وہ رات سراسر سلامتی ہے طلوع فجر تک”۔لیل کے معنی عربی میں رات کے ہیں اور قدر کے معنی تقدیر کے لئے ہیں۔ گویایہ وہ رات ہے جس میں رب العزت تقدیر کے فیصلے نافذ کرنے کیلئے اپنے فرشتوں کے سپرد کرتے ہیں۔ سورئہ دحٰان کی آیت نمبر 5 میں ارشاد ہے ترجمہ “اس رات میں ہر معاملہ کا حکیمانہ فیصلہ صادر کیا جاتا ہے۔ امام زہری قدر کے معنی عظمت و اشرف بتاتے ہیں یعنی یہ رات ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے۔ اس رات کا عملِ خیر ہزار مہینوں کے عملِ خیر سے افضل ہے۔ ملائکہ سے مراد فرشتے ہیں اور روح سے مراد حضرت جبرئیل امینؑ ہیں۔ فرشتے اور جبرئیل امینؑ پنے رب کے حکم سے آتے ہیں۔ یہ خیر و برکت کا سلسلہ شام سے لے کر صبح صادق تک پوری رات جاری رہتا ہے۔ حضرت عبداﷲ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ حضور اقدسؐ نے فرمایا کہ شبِ قدر میں وہ تمام فرشتے جن کا مقام سدرۃ المنتہیٰ ہے حضرت جبرئیلؑ کے ساتھ دنیا میں اُترتے ہیں اور ہر مومن مرد اور مومنہ عورت کو سلام کرتے ہیں سوائے اس شخص کے جو شرابی ہو یا سور کا گوشت کھاتا ہو۔ ایک دن صحابہ کرامؓ نے عرض کیا یا رسول اﷲ ؐ! پہلی اُمتوں کی عمریں زیادہ ہوتی تھیںاس لئے ان کو عبادت کے لئے زیادہ وقت مل جاتا تھا ۔ جبکہ ہماری عمریں نسبتاً کم ہیں اس لئے عبادت کے لئے وقت کم ملتا ہے۔ آپؐ نے فرمایا “آپ لوگوں پر رب العزت نے بے حد فضل کیا ہے کہ شبِ قدر کی عبادت کا درجہ ایک ہزار مہینوں کی عبادت کے برابر رکھا ہے”۔حضرت علیؓ کی روایت کے مطابق حضورؐ نے فرمایا کہ جس شخص نے عشاء کی نماز باجماعت پڑھی اُس نے لیلتہ القدر کی آدھی رات کا ثواب حاصل کر لیا۔ اور جس نے فجر کی نماز بھی باجماعت پڑھی تو پوری رات عبادت کا ثواب حاصل کر لیا۔ اس شبِ مبارکہ میں مشرق سے لے کر مغرب تک امن۔ سلامتی اور حفظ و امان کے جھنڈے گڑھ جاتے ہیں۔ دلوں کو سکون ملتا ہے۔ روح کی تطہیر ہوتی ہے اور قلب کا تزکیہ ہوتا ہے۔ جب مومن مرد اور مومنہ عورتیں اس رات کو ذکرِ الہیٰ میں مشغول ہوتے ہیں تو فرشتے ان کے لئے دعائے رحمت کرتے ہیں۔ حضورؐ کا فرمان ہے کہ لیلتہ القدر کو آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو یعنی 29-27-25-23-21اور آخری رات میں تلاش کیا جائے۔ علمائے کرام نے 27شب کو ہی لیلتہ القدر ہونے پر اتفاق کیا ہے۔ حضورؐ نے فرمایا جو شخص اس مبارک رات میں عبادت کے لئے کھڑا رہے گا اس کے پچھلے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے۔ اﷲ ہمیں اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
Check Also
رمضان کی عظمت، حرمت اور فضیلت!!
الحمد للّٰہ وسلامٌ علٰی عبادہٖ الذین اصطفٰی رمضان المبارک کی بے شمار خصوصیتیں ہیں،جن میں …