الحمد للّٰہ وسلامٌ علٰی عبادہٖ الذین اصطفٰی
رمضان المبارک کی بے شمار خصوصیتیں ہیں،جن میں چند ایک یہ ہیں:
۱:-سال بھر کے مہینوں میں رمضان المبارک ایک ایسا مہینہ ہے جس کا ذکر صراحت کے ساتھ قرآن کریم میں آتا ہے، جیسا کہ ارشادِ الٰہی ہے:
’’شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ أُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْأٰنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّـنٰتٍ مِّنَ الْـہُدٰی وَالْفُرْقَانِ۔‘‘ (البقرۃ:آیت:۱۸۵)
’’رمضان وہ (مبارک) مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا، جو لوگوں کے لیے راہنمائی، ہدایت اور حق وباطل میں تمیز کرنے کا ذریعہ ہے، پس جو کوئی یہ (مبارک) مہینہ پائے اُسے چاہیے کہ وہ اس کے روزے رکھے۔‘‘
۲:-اسی ماہ کو شبِ قدر میں لوحِ محفوظ سے آسمانِ دنیا پر مکمل قرآن کریم کا نزول ہوا، جیسا کہ ارشادِ خدواندی ہے:
’’إِنَّا أَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ وَمَا أَدْرَاکَ مَا لَیْلَۃُ الْقَدْرِ لَیْلَۃُ الْقَدْرِ خَیْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَہْرٍ تَنَزَّلُ الْـمَلٰئِکَۃُ وَالرُّوْحُ فِیْہَا بِإِذْنِ رَبِّہِمْ مِّنْ کُلِّ أَمْرٍ سَلٰمٌ ہِيَ حَتّٰی مَطْلَعِ الْفَجْرِ۔‘‘ (القدر:۳-۵)
’’بلا شبہ ہم نے قرآن کو شبِ قدر میں نازل کیا، اور آپ کو کچھ معلوم ہے کہ شبِ قدر کیسی چیز ہے؟ شبِ قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے، اس رات میں فرشتے اور روح اپنے رب کے حکم سے ہر معاملہ لے کر حاضر ہوتے ہیں، یہ رات سراسر سلامتی ہے، وہ یعنی اس کی خیر وبرکت صبح طلوعِ فجر تک رہتی ہے۔‘‘
گویا رمضان اور قرآن کریم دونوں کا آپس میں گہرا تعلق ہے کہ قرآن رمضان میں آیا تو رمضان کا تذکرہ قرآن کریم میں آیا، اس لیے بعض علماء فرماتے ہیں کہ: رمضان اور قرآن کا جسم اور روح کاسا تعلق ہے۔ رمضان جسم ہے تو قرآن کریم روح ہے:
ماہِ صیام تیرا کیوں نہ ہو احترام
کہ نازل ہوا تجھ میں اللہ کا کلام
اس لیے ہمارے اکابر نے رمضان میں روزہ اور تراویح کے بعد قرآن کریم کی تلاوت کو سب سے بہتر عبادت قرار دیا۔
۳:-رمضان کی ہر رات ایک منادی اعلان کرتا ہے: ’’یا باغي الخیر! أقبل ویا باغي الشر! اقصر۔‘‘ (مشکوٰۃ، ص:۱۷۳) ۔۔۔۔۔’’اے خیر کے طالب! آگے بڑھ، اور اے شر کے طالب! رُک جا۔‘‘ یعنی خیر کے متلاشی اللہ تعالیٰ کی رضا والے کاموں میں مشغول ہو اور اس کی نافرمانی اور گناہوں سے بازآجا۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا اثر اور ظہور ہر آدمی اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے کہ رمضان میں اہلِ ایمان کا عموماً رجحان اور میلان نیکیوں اور عبادات کی طرف زیادہ ہوجاتا ہے۔
ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: منبر کے قریب ہوجاؤ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم منبر سے قریب ہوگئے۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر کے پہلے درجہ پرقدم مبارک رکھا تو فرمایا: آمین۔ جب دوسرے پرقدم مبارک رکھا تو پھر فرمایا: آمین۔ جب تیسرے پرقدم مبارک رکھا تو پھر فرمایا: آمین۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ سے فارغ ہوکر نیچے اُترے توصحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ: (یا رسول اللہ!) ہم نے آج آپ سے (منبرپرچڑھتے ہوئے) ایسی بات سُنی جو پہلے کبھی نہیں سُنی تھی۔ آپ a نے ارشادفرمایا: اس وقت جبرائیل علیہ السلام میر ے سامنے آئے تھے (جب پہلے درجہ پر میں نے قدم رکھا تو) اُنہوں نے کہا: ہلاک ہوجائے وہ شخص جس نے رمضان المبارک کامبارک مہینہ پایا، پھر بھی اس کی مغفرت نہ ہوئی، میں نے کہا: آمین۔ پھر جب میں دوسرے درجہ پر چڑھا تو انہوں نے کہا: ہلاک ہوجائے وہ شخص جس کے سامنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر مبارک ہو اور وہ درود نہ بھیجے، میں نے کہا: آمین۔ جب میں تیسرے درجہ پر چڑھا تو انہوں نے کہا: ہلاک ہو وہ شخص جس کے سامنے اس کے والدین یا ان میں سے کوئی ایک بڑھاپے کو پائے اور وہ ان کی خدمت کرکے جنت میں داخل نہ ہوجائے۔ میں نے کہا: آمین۔ (مستدرک حاکم )
رمضان المبارک ایک ایسا مہینہ ہے کہ اس میں ایک انسان کوشش کرے تو ایک رمضان سارے گناہ بخشوانے کے لیے کافی ہے، جو شخص رمضان کے روزے رکھے اور یہ یقین کرکے رکھے کہ اللہ تعالیٰ کے تمام وعدے سچے ہیں اور وہ تمام اعمالِ حسنہ کا بہترین بدلہ عطا فرمائے گا تو رسولِ اکرمa کا ارشاد ہے:
’’من قام رمضان إیمانًا واحتسابًا غفرلہٗ ماتقدم من ذنبہٖ وماتأخر۔‘‘ (المؤطا بروایۃ محمد بن الحسنؒ )
’’جو شخص ایمان کے ساتھ اور ثواب کی اُمید رکھتے ہوئے رمضان میں قیام کرے گا (یعنی تراویح اور نوافل وغیرہ پڑھے گا) اس کے پچھلے اور اگلے سب (صغیرہ) گناہ معاف کردیئے جائیں گے۔‘‘
ایمان اور احتساب کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے تمام وعدوں پر یقینِ کامل ہو اور ہر عمل پر ثواب کی نیت اور اخلاص وللّٰہیت اور رضائے الٰہی کا حصول پیشِ نظر ہو۔
۴:- دین کے جتنے ارکان ہیں وہ طاقت پیدا کرتے ہیں، یعنی ایک عبادت دوسری عبادت کے لیے معاون ومددگار اور تقویت کا باعث بنتی ہے۔ اسی طرح سے رمضان کا روزہ سال کے پورے گیارہ مہینے کی عبادت کے لیے طاقت پیدا کرتا ہے۔ روزہ کی وجہ سے دوسری عبادات کی ادائیگی کا ذوق وشوق پیدا ہوتا ہے اور توانائی ملتی ہے۔ اگر فرض روزہ کے تمام تقاضوں کا لحاظ رکھا گیا تو اس کا اثر پورے گیارہ مہینوں پر پڑے گا اور روزہ دار کی زندگی میں ایک نمایاں تبدیلی ہوگی۔
۵:- روزہ جن چیزوں سے معمور کیا گیا ہے، اس کا لحاظ رکھا جائے۔ روزہ کا منشأ یہ معلوم ہوتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہواجائے، یعنی روزہ کے ساتھ ساتھ تراویح ، اشراق، چاشت، اوابین، صلاۃ الحاجۃ، صلاۃ التسبیح،تلاوتِ قرآن، اللہ تعالیٰ کا ذکر، صدقہ، خیرات، عشرۂ اخیرہ کے اعتکاف کی کوشش، شبِ قدر کی تلاش اور دعاؤں کی کثرت کا معمول بنایاجائے اور جتنا ہوسکے ان پر عمل کیا جائے۔
اس ماہ میں غریبوں، یتیموں ، بیواؤں اور مسکینوں کے ساتھ ایثار اور ہمدردی کامعاملہ کیا جائے، ان پر سخاوت کی جائے، یہ اس لیے کہ ایک تو ان کا حق ہے اور دوسرا اس لیے کہ صدقہ وخیرات کرنے سے ممکن ہے کہ اللہ کے کسی بندے کا دل خوش ہوجائے تو اللہ تعالیٰ اس کو قبول فرمائے اور ہمارا مقصد پورا ہوجائے۔ یا ہوسکتا ہے ہماری عبادت، ہماری تلاوت، ہماری نمازوں میں کوئی کمی رہ گئی ہو یا اس قابل نہ ہوں کہ وہ قبولیت کامقام حاصل کرسکیں تو اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے سے ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں قبول فرمالیں، اس لیے اس ماہ میں ہمیں پوری طرح خیرات وصدقات کی طرف متوجہ ہونا چاہیے۔
بہرحال اس کی عظمتوں، برکتوں اور خصوصیتوں کا تقاضا یہ ہے کہ اس کی حرمت کا پورا لحاظ رکھے کہ رمضان اللہ تعالیٰ کا شاہی مہمان ہے، جو ہمارے پاس بوجھ بن کر نہیں، رحمت کی موج بن کر آتا ہے، اس لیے اس کے منافی کوئی کام نہ کریں۔
علماء نے لکھا ہے کہ:’’ ایک یہودی نے اپنے بیٹے کو رمضان کے دن میں کھاتے دیکھا تو اُسے مارا کہ تونے اس کی حرمت کو باقی نہ رکھا، کہتے ہیں کہ پھر اسی ہفتہ اس کا انتقال ہوگیا تو شہر کے کسی عالم نے خواب میں دیکھا کہ وہ جنت میں ہے، تعجب سے پوچھا: ’’میاں! تم یہاں کیسے؟ ‘‘ تو اس نے کہا: ’’جب میری موت کا وقت آیا تو حرمتِ رمضان کی وجہ سے مجھے کلمہ پڑھاکر مشرف باسلام کردیا گیا، اور الحمد للہ! میرا خاتمہ ایمان پر ہوا۔‘‘ (نزہۃ المجالس ، مترجم: ۳۲۵۱)
اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں رمضان المبارک کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے، ہماری تمام عبادات کو قبول فرمائے اور آخرت میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کے طفیل جنت الفردوس نصیب فرمائے۔ آمین
وصلّٰی اللّٰہ تعالٰی علٰی خیر خلقہٖ سیدنا محمد وعلٰی آلہٖ وصحبہٖ أجمعین