اسلام کی دو اہم عیدوں میں ایک عید الاضحی ہے، جو ذی الحجہ کی دسویں تاریخ کو عالمِ اسلام میں پورے جوش و خروش سے منائی جاتی ہے۔
عید کا آغاز 624ء میں ہوا۔نبی کریمﷺ کی ہجرت سے پہلے اہلِ مدینہ دو عیدیں مناتے تھے،جن میں وہ لہوو لعب میں مشغول رہتے تھے اور بے راہ روی کے مرتکب ہوتے تھے۔آپﷺ نے دریافت کیا کہ ان دونوں کی حقیقت کیا ہے؟لوگوں نے عرض کیا کہ عہدِ جاہلیت سے ہم اسی طرح دو تہوار مناتے چلے آرہے ہیں۔آپ ﷺ نے فرمایا! اللہ تعالی نے اس سے بہتر دو دن تمہیں عطا کیے ہیں،ایک عید الفطرکا دن اور دوسرا عید الاضحی کا دن(ابوداؤد:1134)
عید الاضحیٰ کیا ہے: یہ اس بے مثال قربانی کی یادگار ہے جو حضرت ابراہیم ؑ نے اللہ تعالی کے حضور پیش کی تھی۔جس کی تفصیل یہ ہے کہ آپ کے دل میں حضرت حاجرہؓ سے شادی کے بعد اولاد کی خواہش پیدا ہوئی اور اس کا اظہار آپ نے اللہ تعالی سے ان الفاظ میں کیا:
رب ھب لی من الصٰلحین(الصٰفٰات:100)
’’ائے پروردگار، مجھے ایک بیٹا عطا کر جو صالحوں میں سے ہو‘‘
حضرت ابراہیم ؑ کی دعا قبول ہوئی اور حضرت اسماعیل ؑ پیدا ہوئے ۔جب آپ کچھ بڑے ہوئے تو اللہ تعالی کی طرف سے آزمائش کا سلسلہ شروع ہوا ۔حکم ملا کہ اپنی بیوی اور شیر خوار بچے کو مکہ کی بے آب وگیاہ وادی میں چھوڑ آؤ ۔ آپ نے اس حکم کی تعمیل کی اور جب ان کو چھوڑ کر لوٹنے لگے تو پیچھے پلٹ کر نہیں دیکھا کہ مبادا فطری جذبے سے دل بھر آئے اور ارادے میں تنزل پیدا ہوجائے ۔سیدہ حاجرہؓ آپ کے پیچھے پیچھے چلیں اور پوچھا کہ آپ ہمیں کس پر چھوڑے جاتے ہیں؟ جواب ملا’اللہ پر‘ تو انہوں نے فرمایا :میں اللہ پر راضی ہوں۔ جب آپ اس آزمائش پر کھرے اترے تو اللہ تعالی نے انعا م کے طور پر اس بے آب وگیاہ آبادی میں زمزم کا چشمہ جاری کردیا اور قبیلہ جرہم کو آباد کیا۔
ہم سب کے لیے اس میں سبق ہے کہ : اللہ کے دین کو رائج اور قائم کرنے کے لیے بڑا سے بڑا خطرہ مول لینے میں کبھی نہیں جھجکنا ہے، چاہے اس کے لیے بیوی بچوں سے جدائی یا بھوک پیاس براشت کرنا پڑے اور جان ومال کی قربانی دینی ہوتو بھی پس و پیش سے کام نہ لیں جیسا کہ حضرت ابراہیم ؑ نے کیا تھا:
ربنا انی اسکنت من ذریتی بواد غیر ذی زرع عند بیتک المحرم۔ربنا لیقیمواالصلوٰۃ فاجعل افئدۃ من الناس تھوی الیھم وارزقھم من الثمرات لعلھم یشکرون(ابراہیم:37)
’’ائے ہمارے پروردگار! میں نے ایک بے آب و گیاہ وادی میں اپنی اولاد کے ایک حصے کو تیرے محترم گھر کے پاس لا بسایا ہے۔ پروردگار یہ میں نے اس لیے کیا ہے کہ یہ لوگ یہاں نماز قائم کریں، لہٰذا تو لوگوں کے دلوں کو ان کا مشتاق بنااور انہیں کھانے کو پھل دے۔ شاید کہ یہ شکر گذار بنیں‘‘
دوسری آزمائش حضرت ابراہیم ؑ کی یوں ہوتی ہے کہ آپ نے خواب دیکھا کہ وہ اپنے اکلوتے بیٹے کو اپنے ہی ہاتھوں ذبح کر رہے ہیں ۔آپ اسے وحیِ الٰہی سمجھ کر فوراً اس کی تکمیل کے لیے تیار ہو گئے اور اپنے بیٹے اسماعیلؑ سے مشورہ کیا تو انہوں نے بھی اللہ تعالی کے حکم کے آگے سر تسلیمِ خم کر دیا۔ قرآن کریم نے اس کا منظر اس طرح سے کھینچا ہے:
فلما بلغ معہ السعی قال یٰبنی انی اریٰ فی المنام انی اذبحک فانظر ما زا تریٰ قال یٰابت افعل ما تؤمر ستجدنی ان شاء اللہ من الصابرین(الصٰفٰات:102)
’’ وہ لڑکا جب اس کے ساتھ دوڑ دھوپ کی عمر کو پہنچ گیا تو (ایک روز) ابراہیم ؑ نے اس سے کہا: بیٹا خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں۔ اب بتا تیرا کیا خیال ہے؟ اس نے کہا: ابا جان! جو کچھ آپ کو حکم دیا جا رہا ہے اسے کر ڈالیے۔ آپ ان شاء اللہ مجھے صابروں میں سے پائیں گے‘‘
جب حضرت ابراہیمؑ اس عظیم قربانی کے لیے تیار ہو گئے اور آپ نے اسماعیلؑ کو پیشانی کے بل لیٹا دیا کہ چہرا دیکھ کر پدرانہ محبت ہاتھوں میں لرزش نہ پیدا کر دے اور قریب تھا کہ چھری اپنا کام کر جاتی کہ اللہ تعالی نے فرمایا : ابراہیم تم اس آزمائش میں بھی سرخرو ہو نکلے اور ایک مینڈھا آپ کی جگہ بطور فدیہ قربانی کے لیے جنت سے بھیج دیا۔ قرآن نے اس کو اپنے مخصوص انداز میں بیان کیا ہے:
فلما اسلما و تلہ للجبین۔و نادینٰہ ان یٰا ابراہیم ۔ قد صدقت الرء یا انا کذٰلک نجزی المحسنین۔ان ھٰذا لھو البلٰؤ المبین۔و فدینٰہ بذبح عظیم(الصٰفٰت:103،107)
’’ غرض جب دونوں مطیع ہو گئے اور اس نے (باپ نے)اس کو(بیٹے کو) پیشانی کے بل گرا دیا۔تو ہم نے آواز دی اے ابراہیم! یقیناً تو نے اپنے خواب کو سچا کر دکھایا، بیشک ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح جزا دیتے ہیں ۔ در حقیقت یہ کھلا امتحان تھا اور ہم نے ایک بڑا ذبیحہ اس کے فدیہ میں دے دیا‘‘
یہ انسانی قربانی اپنی نوعیت اور تاریخ کے لحاظ سے پہلی قربانی تھی کیونکہ یہ صرف اللہ تعالی کے لیے تھی ۔کسی دیوی یا دیوتا کے نام پر نہ تھی ۔باپ اپنے بیٹے کو خود اپنے ہاتھوں ذبح کر نے کو تیار تھا ورنہ عموماً ا س کام کو دوسرے لوگ انجام دیتے ہیں اور یہ کہ قربان ہونے والا بذاتِ خود تیار تھا ،ورنہ اس سے پہلے قربانی کے لیے زبردستی پکڑ کر لایا جاتا تھا۔ یہی وہ سنتِ ابراہیمی ہے جس کی یاد میں ہر سال مسلمان عید الاضحی کے موقع پر کرتے آئے ہیں۔
سنتِ ابراہیمی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اللہ تعالی کی راہ میں اپنی محبوب ترین چیز پیش کی جائے جس کا مقصد صرف اور صرف اس کی خوشنودی و رضا کا حصول ہو اوراہم بات یہ کہ اس میں ریا کاری نہ ہو ۔کوئی اگر اس وجہ سے عمدہ مہنگے جانور خریدتا ہے کہ لوگ اس کی تعریف کریں اور اسے سراہا جائے تو اللہ تعالی کے پاس اس کا کوئی اجر نہ ہوگا ۔بڑے سے بڑے عدد کو اگر صفر سے تقسیم کر دیا جائے تو حاصلِ ضرب صفر ہوجاتا ہے۔اس کے علاوہ اس میں جان ومال، اولاد،وقت اور صلاحیتیں وغیرہ کی بھی قربانی شامل ہیں۔
موجودہ دور میں فسادات ہونا ایک عام بات ہے ،تب توہم اپنے ڈیفنس میں اس وقت قدم اٹھا سکتے ہیں؟یہ اس سے لاکھ درجہ بہتر ہے کہ لاکھوں کی تعداد میں نقل مکانی کر جائیں، کیمپوں میں پڑے رہیں اور واویلا مچاتے رہیں یا جن کی سرپرستی میں ہو رہا ہو ،انہیں سے زندگی کی بھیک مانگیں۔ اسی وقت تو ہمارا، اس سنتِ ابراہیمی کی یاد تازہ کرنے کا امتحان ہوتا ہے۔ ورنہ ہر سال ابراہیم ؑ کی سنت کو اد ا کرنے کا کیا مطلب ہے ؟صرف جانور لا کر ذبح کر دینا تواس کا مقصد نہیں ہے۔
عید الاضحی کی تیاری :اس وقت والدین ،خاص کر ماں کا امتحان ہوتا ہے کہ وہ اپنے بچوں اور بچیوں کی عید کی تیاری میں کن چیزوں کا خیال رکھ رہی ہیں،ان کے لباس اور زیب و زینت کے سامان میں اسراف و تبذیر اور نمائش سے کام لے رہی ہیں،جو اللہ تعالی کو سخت ناپسند ہے اور جس کو شیطانی عمل کہا گیا ہے یا حکمت اور تدبر سے ان کے دلوں کو خوش کر رہی ہیں کہ یہ ان کا حق ہے۔قرآن کریم نے اسراف اور فضول خرچی کرنے والوں کو شیطان کا بھائی قرار دیا ہے۔آیتِ کریمہ ہے:
’’فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا بڑا ہی نا شکرا ہے‘‘(بنی اسرائیل:27)
اس لیے اگر اللہ تعالی نے آپ کو مال سے نوازا ہے تو اس کی اتنی نمائش نہ کریں کہ غریبوں کا زندہ رہنا مشکل ہو جائے،بہت قیمتی کپڑے اور دوسری چیزیں اپنے بچوں پر نہ لادیں کہ ان کو دیکھ کر خود پر رونا آئے،اسی لیے کہا گیا ہے کہ غریب کے گھر کے سامنے گوشت کی ہڈیاں یا پھلوں کے چھلکے نہ پھیکے جائیں کہ اس کے بچے بھی دیکھ کر مانگنے لگیں اور وہ بے چارہ غم کے آنسو پی کر جلتا رہے۔
عید الاضحی کی دعوتیں:
قربانی خوش حال لوگوں پر واجب ہے اور گوشت کا ایک حصہ غرباء پر، ایک حصہ اپنے اقرباء و رشتہ داروں پر خرچ کیا جاتا ہے ۔ موجودہ دور میں لوگوں نے فرج میں جمع کرکے رکھنا شروع کر دیا ہے ۔اس سے اجتناب کرنا چاہیے اور صاحبِ مال کو غریبوں کا خاص خیال رکھنا چاہیے تا کہ وہ اور ان کے بچے بھی اس خوشی میں شامل ہو سکیں۔انھیں اس دن اپنے گھروں میں بلانا چاہیے اور خو دبھی ان کے یہاں جانا چاہیے، تاکہ ان کو الگ تھلگ ہونے کا احساس نہ ہو۔ یہ نہ بھولیں کہ آج مسلمانوں میں غریبوں کی تعداد زیادہ ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اکثریت نے زکوۃ دینا چھوڑ دیا ہے، جس کو اللہ تعالی نے غریبوں کے لیے مقرر کیا ہے۔اس’ سنہرے اصول‘ کو سکھ قوم نے اپنا لیا ،اسی وجہ سے ان میں بھکاری ڈھونڈھنے پر شاید ہی آپ کو ملے ۔
عموماً ایساہوتا ہے کہ لوگ اپنا اسٹیٹس دیکھ کر دوست احباب کو بلاتے اور ان کی دعوتیں کرتے ہیں اور غریبوں کو درکنار کر دیتے ہیں ۔نبیِ کریم ﷺ نے غریبوں کا خاص خیال رکھنے کی بارہا تاکید کی ہے۔ حضرت ابوہریرۃؓ سے مروی ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:
’’بیواؤں اور مسکینوں کی خبرگیری کرنے والا،اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے۔(راوی حدیث کہتے ہیں کہ)میرا گمان ہے کہ آپﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ وہ اس عبادت کرنے والے کی طرح ہے جو سست نہیں ہوتا اور اس روزے دار کی طرح ہے جو ناغہ نہیں کرتا‘‘(بخاری:5353)
عید کی سنتیں:(1)غسل کرنا(2)حسبِ استطاعت نئے کپڑے پہنا(3)خوشبو لگانا(4)خالی پیٹ جاناجیسا کہ حدیث ہے :حضرت عبداللہ بن بریدہؓ سے مروی ہے کہ روایت ہے کہ نبیِ کریم ﷺ عید الفطر کے لیے اس وقت تک نہ نکلتے جب تک کہ کچھ کھا نہ لیتے اور عید الاضحی میں اس وقت تک نہ کھاتے جب تک کہ نماز نہ ادا کرلیتے(ترمذی:527)
(4)عید گاہ پیدل جانا اور ایک راستے سے جانا اور دوسرے راستے سے واپس آنا۔ حضرت ابورافعؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ عید کی نماز کے لیے پیدل تشریف لے جاتے تھے اور جس راستے سے جاتے تھے ،اس کے علاوہ دوسرے راستے سے واپس آتے تھے(ابنِ ماجہ:1300)
(5) راستے میں تکبیریں (اللہ اکبر اللہ اکبر،لاالہ الا اللہ،واللہ اکبر اللہ اکبر و للہ الحمد)پڑھتے ہوئے جانا ،ہم سب کو اس کا اہتمام کرنا چاہیے،نوجوان طبقہ عموماً آپس میں ہوہااور دنیا بھر کی بکواس کرتا ہوا جاتا ہے۔ اس سے اجتناب کرنا چاہیے، تا کہ اللہ تعالی کی حمد ہو اور دوسرے محسوس کریں کہ آج کوئی خاص دن ہے ۔اس سے غیروں پر رعب بھی پڑتا ہے۔یہ نہیں کہ مرے مرے انداز میں منہ لٹکائے چلے جا رہے ہیں۔
(6) خطبہ سننا:نمازِ عید الاضحی کے بعد امام خطبہ دیتا ہے ،اس کو سن کر جانا چاہیے،اکثر لوگ نماز ختم ہوتے ہی بھاگنے لگتے ہیں۔خطبہ میں عید الاضحی سے متعلق مذہبی ذمہ داریوں کی تلقین کی جاتی ہے،اللہ تعالی سے اپنی کوتاہیوں اور غلطیوں کی معافی مانگی جاتی ہے ،عالمِ اسلام اور بنی نوع انسانیت کی بھلائی کے لیے خصوصی دعائیں کی جاتی ہیں،جن کو قبولیت کا شرف حاصل ہوتا ہے۔احادیث سے یہ بات ثابت بھی ہے۔
خواتین کا عیدگاہ میں جانا:عید کی نماز کے لیے خواتین اور بچے بچیوں کو بھی لانا چاہیے۔حضرت امِ عطیہؓ سے مروی ہے کہ آپﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ:’’ ہم عید الفطر اور عید الاضحی کے روز پردہ نشین دوشیزاؤں،چھوٹی بچیوں اور حائضہ عورتوں کو عیدگاہ کے لیے نکالیں البتہ حائضہ عورتیں نماز کی جگہ سے علیحدہ رہیں گی ، اور مسلمانوں کی دعا میں شریک ہوں گی۔میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ :بعض عورتیں ایسی بھی ہیں جن کے پاس چادر نہیں ہوتی۔فرمایا! جس عورت کے پاس چادر نہ ہو ،وہ اپنی بہن سے لے لے‘‘(بخاری:974)
عیدگاہ کے منتظمین کو اس کے لیے پردے اور دوسری ضروریات کا انتظام کرنا چاہیے۔اس سے شوکتِ اسلام کا اظہار ہوتا ہے اور مرد عورتیں بچے عیدگاہ میں اللہ تعالی کے سامنے سجدہ ریز ہو کر دعائیں کرتے ہیں تو اگر کسی ایک کی بھی دعا قبول ہو گئی تو یہ تمام حاضرین کے لیے باعثِ برکت ہو گی۔تنگ نظر علما اس کی مخالفت کیوں کرتے ہیں ، معلوم نہیں ۔جب کہ یہی عورتیں اور لڑکیاں بے تحاشہ بازاروں، یونیورسٹیوں، کالجوں ، میلوں اور عرسوں وغیرہ میں شریک ہوتی ہیں،تب ان کو کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔
البتہ خواتین کو عیدگاہ آتے وقت اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ وہ پردے میں ہوں،خوشبونہ رکھی ہو،مردوں سے الگ ہو کراور راستے کے کنارے دب کر چلیں۔خوشبو کے سلسلے میں نبی کریمﷺ نے فرمایا:’’ جب عورت خوشبو لگا کر نکلتی ہے اور کسی مجلس کے پاس سے گذرتی ہے تو وہ ایسی اور ویسی ہے یعنی زانیہ ہے(ابوداؤد:4173)
Check Also
رمضان کی عظمت، حرمت اور فضیلت!!
الحمد للّٰہ وسلامٌ علٰی عبادہٖ الذین اصطفٰی رمضان المبارک کی بے شمار خصوصیتیں ہیں،جن میں …